میر حسن کے سوانحی حالات

میر حسن کے سوانحی حالات

حیات نامہ

میر حسن کا اصل نام غلام حسن اور تخلص حسن تھا۔ ان کی پیدائش 1737 میں پرانی دہلی کے محلے سیدواڑہ میں ہوئی، جیسا کہ قاضی عبدالودود نے لکھا، جبکہ ڈاکٹر وحید الدین قریشی کے مطابق وہ 1741 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر غلام حسین ضاحک ہجو گو شاعر تھے اور مرزا رفیع سودا سے ان کے معارضے مشہور ہیں۔ میر حسن کے مورث اعلیٰ میر امامی موسوی ہروی تھے، جو شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے دہلی آئے۔ مثنوی گلزار ارم سے ظاہر ہوتا ہے کہ میر حسن دہلی میں کسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر رہے۔

ہجرت اور ملازمت

1765 میں، وحید قریشی کے بقول، میر حسن نے جوانی کے آغاز میں اپنے والد کے ساتھ دہلی سے اودھ ہجرت کی۔ انہوں نے اپنے تزکرے شعرائے اردو میں اس ہجرت کا ذکر کیا۔ مصحفی کے مطابق یہ ہجرت 1749 میں 12 سال کی عمر میں ہوئی۔ میر حسن لکھنو سے فیض آباد گئے اور وہاں نواب سالار جنگ کی سرکار میں ملازم ہوئے، جہاں وہ نواب کے بڑے بیٹے مرزا نوازش علی خان کے مصاحب بنے۔ میر شیر علی افسوس بھی ان کے مصاحب رہے۔ بعد میں وہ لکھنو واپس آئے اور 24 اکتوبر 1786 کو مفتی گنج میں وفات پائی، جہاں انہیں مرزا قاسم علی خاں کے باغ میں دفن کیا گیا۔

ادبی رفاقتیں

میر حسن کے غلام ہمدانی مصحفی سے دوستانہ تعلقات تھے، اور انہوں نے اپنے بیٹے میر مستحسن خلیق کو مصحفی سے اصلاح کلام کے لیے بھیجا۔ مصحفی نے اپنے تزکرہ ہندی میں میر حسن کی دوستی کی تعریف کی اور ان کی وفات پر قطع تاریخ “شاعرِ شیریں زباں” کہا، جو 1201 ہجری (1786) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعری میں وہ میر ضیا الدین ضیا کے شاگرد تھے، مرزا سودا سے اصلاح لیتے تھے، اور دہلی میں میر درد سے بھی تلمیذ رہے۔ ان کے چار بیٹوں میں سے میر مستحسن خلیق، مشہور مرثیہ گو میر انیس کے والد تھے۔

تصنیفات میر حسن

میر حسن کا دیوان، جس میں غزلیں اور دیگر اصناف شامل ہیں، 1192 ہجری تک مدون ہوا، جس میں تقریباً 9 ہزار اشعار ہیں۔ انہوں نے بارہ مثنویاں اور ایک تزکرہ شعرائے اردو لکھا، جو 1192 ہجری میں مکمل ہوا۔ یہ تزکرہ انجمن ترقی اردو ہند نے 1922 اور 1940 میں شائع کیا، اور 1979 میں ڈاکٹر اکبر حیدری نے اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا۔ ان کی تمام مثنویاں الگ الگ بھی شائع ہوئیں، اور وحید قریشی نے 1966 میں انہیں مثنویات حسن کے نام سے یکجا کیا، جس میں 11 مثنویاں شامل ہیں۔

مثنویات  میرحسن

ان مثنویوں میں نقل کلاونت (18 اشعار)، نقل زن فاحشہ (25 اشعار)، نقل قصاب برائے تصریح مزاج (8 اشعار)، نقل قصائی (34 اشعار)، شادیِ آصف الدولہ (106 اشعار)، رموز العارفین (800 اشعار)، در ہجوِ حویلی (143 اشعار)، گلزار ارم (379 اشعار)، در تہنیت عید (55 اشعار)، در وصف قصر جواہر (302 اشعار)، اور خوانِ نعمت (100 اشعار) شامل ہیں۔

مثنوی سحرالبیان

میر حسن کی سب سے مشہور مثنوی سحرالبیان ہے، جو 1199 ہجری (1784/85) میں مکمل ہوئی۔ اس کی پہلی اشاعت 1805 میں فورٹ ولیم کالج سے ہوئی، جس کا دیباچہ میر شیر علی افسوس نے لکھا اور رشید حسن خان نے مرتب کیا۔ اس میں 34 عنوانات ہیں، جو زیادہ تر “داستان” سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ مثنوی بحر متقارب مثمن مقصور یا محذوف میں ہے، جس میں 2200 اشعار ہیں۔ اس کے آخر میں مصحفی کا قطع تاریخ شامل ہے۔ اس کے اہم کرداروں میں شاہ زادہ بے نظیر (ہیرو)، بدر منیر (ہیروئن)، نجم النساء (وزیر زادی)، فیروز شاہ (جنوں کے شاہ کا بیٹا)، اور ماہ رخ پری شامل ہیں۔

کوئز لے لیے اس لنک پر کلک کریں:


Discover more from Darsgaah E Urdu

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *